پاکستان میں دنیا کی بلند ترین عمارت کا قیام
08-03-2018
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
قاسم اس خواب میں بیان کرتے ہیں کہ لوگ آپس میں بات کر رہے ہوتے ہیں کہ "دوسرے ممالک میں اونچی عمارتیں ہیں لیکن پاکستان میں کوئی نہیں ہے۔" تب میرے ذہن میں ایک خیال آتا ہے کہ مجھے ایک عمارت بنانی چاہئے۔ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کی سب سے اُونچی عمارت میں 110 منزلیں ہوتی ہیں۔ میرے پاس زمین کا پلاٹ ہوتا ہے اور میں کسی سے پوچھتا ہوں۔ ’’ کیا اس زمین پر کوئی عمارت بنائی جاسکتی ہے؟" تو وہ کہتا ہے کہ "یہ ناممکن ہے، کسی بھی عمارت کے لئے آپ کو ایک بڑے پلاٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پلاٹ صرف 10 مرلہ یا 25 مربع میٹر کا ہے۔" وہ مجھ سے کہتا ہے کہ "کچھ سرکاری اصول و ضوابط بھی ہوتے ہیں، آپ یہاں 3 منزلہ عمارت سے زیادہ نہیں بنا سکتے، بصورت دیگر وہ حکومت والے مداخلت کریں گے اور روکیں گے۔" تب میں اپنے آپ سے کہتا ہوں کہ ’’ مجھے کوشش کرنی چاہئے، میں عمارت اتنی خاموشی اور جلدی سے تعمیر کروں گا کہ کسی کو اس کے بارے میں پتہ نہیں چل سکے گا اور جب ہر کوئی عمارت کو دیکھے گا تو سب خوش ہوجائیں گے۔
میں رات کے وقت کام شروع کرتا ہوں اور شاید ایک ہی دن میں 3 سے 4 منزلہ عمارت تعمیر کرنے کا انتظام کرتا ہوں۔ اس کے بعد میں انٹیریر ڈیزائننگ بھی کرتا ہوں اور میں اس طرح فلیٹس تیار کرتا ہوں کہ ہر منزل میں ایک فلیٹ ہوتا ہے جسے لوگ کرایہ پر لے سکتے ہیں اور ہر فلیٹ میں کچن، کمرے اور واش رومز ہوتے ہیں۔ پھر 3 سے 4 دن میں وہ عمارت 30 سے 40 منزلوں تک پہنچ جاتی ہے۔ میں اندر کا ڈیزائن بھی بناتا ہوں، پھر میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اندرونی حصّے کیلئے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ’’ یہ کون لوگ ہیں اور یہاں انہیں کس نے بلایا ہے؟" میں ان سے بات کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ ہم یہاں کام کرنے آئے ہیں، جو کام آپ کر رہے ہیں وہ بہت اچھا ہے لیکن ہم اس کے اندرونی حصّے میں بہتری لا رہے ہیں تاکہ لوگ اس سے متاثر ہوں۔’’ وہ لوگ بہت محنت کر رہے ہوتے ہیں اور وہ تقریبا نان اسٹاپ کام کرتے ہیں۔ وہ دیوار پر کچھ کیمیکل لگاتے ہیں اور اسے رگڑ دیتے ہیں اور دیوار چمکنے لگتی ہے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ’’ آپ کیمیکل کیوں استعمال کررہے ہیں اور یہاں تک کہ اس کو لگانے کے لئے بھی آپ نے خصوصی گیئر پہنا ہوا ہے اور اسے رگڑنا بھی آسان کام نہیں ہے۔" وہ کہتے ہیں کہ ’’ اس کیمیکل کے بغیر فرش اور دیواریں چمک نہیں سکیں گی اور نہ ہی ان کو کوئی پسند کرے گا۔" میں ان سے کہتا ہوں کہ "ٹھیک ہے۔ جیسا آپ اپنی مرضی سے کریں۔" تب میں انہیں بتاتا ہوں کہ ’’کل یہ عمارت 60 منزلوں تک پہنچ جائے گی‘‘ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ "ٹھیک ہے۔"
اگلی صبح جب میں وہاں پہنچتا ہوں تب واقعی یہ عمارت ساٹھ منزلوں تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور اسے دور سے ہی دیکھا جاسکتا تھا۔ جب میں عمارت میں داخل ہوتا ہوں تو پھر وہ لوگ عمارت کی اگلی 20 منزلوں پر اندر سے کام کر رہے ہوتے ہیں، تاہم ایک طرف کی دیوار ابھی تک نہیں بنی تھی۔ یہاں مجھے ذرا پریشانی ہوئی کہ ہم نے ساٹھ منزلیں بنائی ہیں لیکن اگر عمارت کمزور ہونے کی وجہ سے گرتی ہے تو کیا ہو گا؟ اور اس کے دونوں طرف سے ایک دیوار ابھی تک نہیں بنی ہے۔ میں نے صرف اس بارے میں سوچا اور اچانک پائپ والی مشین وہاں پہنچی اور کنکریٹ بھرنے لگی۔ یہ دیکھ کر میں مطمئن ہوجاتا ہوں۔ پھر اس کے بعد شاید کچھ لوگ یہ سوچ کر اس عمارت کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں کہ ’’اس عمارت کو کس نے بنایا ہے؟" چونکہ یہ اندر سے اچھی ہوتی ہے لہذا لوگ بھی اسے پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگ سب سے اُونچی منزل پر جاتے ہیں اور لاہور شہر دیکھنے لگتے ہیں کہ یہ اتنی بُلندی سے دیکھنے میں کیسا لگتا ہے۔ میں اپنے آپ سے کہتا ہوں کہ ’’وہاں کوئی ریلنگ نہیں ہے اور اگر کوئی نیچے گر جاتا ہے تو کیا ہوگا۔" پھر میں ریلنگ ڈالنے کے لئے اوپر چلا جاتا ہوں لیکن وہ خود ہی لگ ہو چکی ہوتی ہیں۔ یہ سارے کام اللہ تعالٰی کی رحمت سے ہوئے ہوتے ہیں۔
پھر وہ لوگ کچھ بڑے لوگوں کو اس عمارت کے اندر لے آتے ہیں تاکہ مزید لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ چل سکے۔ جب میڈیا کے کچھ لوگوں کو اس عمارت کے بارے میں معلوم ہوتا ہے تو وہ کیمرہ اور رپورٹرز کے ساتھ عمارت دیکھنے آتے ہیں۔ اس مقام پر میرا خیال ہے کہ میں عمارت کا اندرونی حصّہ چیک کرنے جاتا ہوں اور جب میں چھت پر جاتا ہوں تو وہ لوگ وہاں موجود تھے اور وہ اسے ٹیلی ویژن پر دکھا رہے تھے کہ '' اب تک یہ پاکستان کی سب سے لمبی عمارت ہے۔"
جب میں اوپر پہنچتا ہوں تو میرا لباس بھی بدل جاتا ہے۔ وہ لوگ میڈیا والوں سے بات کرتے ہیں لیکن جب میں پہنچتا ہوں تو صحافی کہتے ہیں کہ ’’قاسم بھی یہاں آیا ہے، ہمیں ان سے پوچھنا چاہئے کہ اس نے یہ عمارت کیسے بنائی؟" میرے پاس ایک بیک پیک ہوتا ہے جو میرے کندھے پر اسکول بیگ کی طرح لٹک رہا ہوتا ہے لیکن یہ چھوٹا ہوتا ہے۔ جب میں عمارت سے بھاگنے اور چھلانگ لگانے والا ہوتا ہوں تو وہ لوگ جو وہاں کام کر رہے ہوتے ہیں وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ’’یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تم گر کر مرنا چاہتے ہو؟ میڈیا کے لوگ بھی پریشان ہوجاتے ہیں اور میں انہیں بتاتا ہوں کہ ’’ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔" تب میں عمارت سے کُود پڑتا ہوں اور میں ہوا میں اُڑنے لگتا ہوں اور میں ان سے کہتا ہوں کہ ’’اس بیگ میں جو میرے اوپر ہے اس میں ایک خاص گیس ہے اور یہ ایک ہی شخص کا وزن اُٹھا سکتی ہے۔’’تب میں مزید آگے بڑھتا چلا جاتا ہوں اور عمارت کی طرف دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ’’اسے دنیا کی سب سے لمبی عمارت بننا ہے اور اللہ تعالٰی کے رحم و کرم سے یہ کام اب آسان ہوگیا ہے۔" جب لوگ مجھے ہوا میں بھاگتا دیکھتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور میڈیا کے لوگ بھی خوش ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا جیسے اب بہت سارے لوگوں کو اس عمارت کے بارے میں پتہ چل گیا ہے کیونکہ لوگ نیچے سے مجھے بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ایک یا دو ٹی وی چینلز بھی براہ راست نشریات کے ذریعے یہ دکھا رہے ہوتے ہیں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ