محمد قاسم اپنے خواب کیوں شیئر کرتے ہیں؟ قرآن اور حدیث کی روشنی میں تجزیہ
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
آج ہم جس موضوع پر بات کریں گے وہ ہے "خواب" اور بالخصوص محمد قاسم بن عبدالکریم کے رحمانی خواب اور ان کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ محمد قاسم بن عبدالکریم اپنے خوابوں کو کیوں شیئر کرتے ہیں؟ اور ان خوابوں کی تشہیر اور ان کو بیان کرنا اتنا ضروری اور اہم کیوں ہے؟
اس موضوع پر میں نے تحقیق کی ہے اور میں آج آپ کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں تفصیل سے بتاؤں گا کہ محمد قاسم اپنے رحمانی خوابوں کو ہر کسی سے کیوں بیان کرتے ہیں؟
قیامت کے قریب بہت کم خواب ہوں گے جو صحیح نہیں ہوں گے
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: جب زمانہ(قیامت کے) قریب ہوجائے گا تو مسلمان کا خواب کم ہی جھوٹا ہوگا ، جو آدمی زیادہ سچا ہوگا اس کا خواب بھی زیادہ سچا ہوگا ، مسلمان کا خواب نبوت کے اجزاء میں سے پنتالیسواں حصہ ہے ۔ صحیح مسلم: (2263)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے بعد نبوت سے کوئی چیز باقی نہ رہے گی سوائے 'مبشرات' کے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! 'مبشرات' کیا ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اچھا خواب جو مومن دیکھتا ہے یا اس کے لیے کسی کو دکھایا جاتا ہے۔" ( صحیح بخاری:6990)
ایسا اس وجہ سے ہو گا کیو نکہ نبوت اور اس کے اثرات اتنے دور ہوں گے کہ مومنین کو خوابوں کے ذریعے راہنمائی دی جاۓ گی، جو ان کے لیے کوئی اچھی خبر لائیں گے یا ان کو صبر کرنے اور ایمان پر قائم رہنے میں مدد دینگے۔
سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصّہ ہوتے ہیں
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ( بخاری ومسلم، مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ خواب کا بیان ۔ حدیث 541
خوابوں کو اسلام میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے
قرآن میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصّہ اُن لوگوں کی آنکھیں کھولنے اور جگانے میں مدد کرتا ہے جو مؤمنین کے خوابوں اور ان سے منسلک راہنمائی کو بلا جواز جھٹلاتے ہیں۔ بلکہ قرآن میں تو یوسف علیہ السلام کے دور کے ایک ایسے غیر مسلم بادشاہِ مصرکے خواب کا ذکر اللہ نے خود کیا ہے جس کے خواب نے اسکی سلطنت کوایک بڑی مصیبت اورآفت سے بچایا تھا۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں سورۃ یوسف میں ارشاد فرماتا ہے کہ
"بادشاه نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی فربہ گائیں ہیں جن کو سات ﻻغر دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہیں ہری ہری اور دوسری سات بالکل خشک، اے درباریو! میرے اس خواب کی تعبیر بتلاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو"۔ سورۃ یوسف(۱۲ : ۴۳)
مصر کے بادشاہ نے ایک بہت ہی ڈراونا خواب دیکھا اور اس نے اپنے سب سے تجربہ کار مشیروں سے کہا کہ مجھے میرے اس خواب کی تعبیر بتاؤ، ان سب نے کو شش کی لیکن کوئی بھی تسلّی بخش جواب نہ دے سکا۔ بادشاہ کے محل کے ایک خادم کو قید خانے کے دور سے یوسف علیہ اسلام اور ان کی خوابوں کی تعبیر بتانے کی صلاحیت بخوبی یاد تھی کیونکہ وہ انکی خوابوں کی تعبیر بتانے کی صلاحیت سے خود بھی مستفید ہو چکا تھا، جب وہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ قید خانے میں تھا۔
چنانچہ بادشاہ کے مشیروں نے قید خانے کا دورہ کیا اور یوسف علیہ اسلام کو بادشاہ کا خواب بیان کیا جس پر انہوں نے یہ بتایا کہ مصر میں آنے والے وقت میں 7 سال زرخیز ہوں گےاور پھر اس کے بعد 7 سال بنجر یا قحط سالی کے ہوں گے۔ یوسف علیہ السلام نے اس بات پر زور بھی دیا کہ ان آنے والے مشکل سالوں میں وسائل کی تقسیم اور استعمال میں نظم و ضبط کو برقرار رکھا جائے۔ انہوں نے یہ بھی فرما یا کہ ان 14 سالوں کے گزرنے کے بعد مصر کی زمین پھر سے زرخیز ہو جائے گی اور مال اور اناج کی کثرت ہوگی۔
جب بادشاہ کو یوسف علیہ السلام کی بیان کردہ یہ تعبیر سُنائی گئی تو اس نے اطمینان کا اظہار کیا اور یوسف علیہ السلام کی رہائی کا حکم نامہ جاری کر دیا اور انکو مصر کے وزیرِ خزانہ کے عہدے پر فائز کر دیا۔ جسکے نتیجے میں یوسف علیہ السلام نے کاشتکاری اوراناج زخیرہ کرنے کی ذمّہ داری اپنے کندھوں پر اُٹھالی اور وسائل کا استعمال اور تقسیم کا کام بہت ہی مؤثر طریقے سے انجام دیا۔ انھوں نے سات زرخیز سالوں کے دوران وسائل کو جمع کرکے آنے والے سات خشک سالوں کے لئے تیاری کی۔ اس طرح سے انھوں نے اپنی سلطنت اور اسکی رعایا کو ایک بڑی مصیبت اور آزمائش سے بچا لیا۔ اور اس طرح سے خواب میں دی گئی راہنمائی نے بہت سی زندگیاں بچا لیں۔ اور یا د رہے کہ یہ خواب ایک غیر مسلم بادشاہ نے دیکھا تھا!
محمد قاسم کے خواب ہمیں مستقبل میں پیش آنے والے مصائب کی خبر دیتے ہیں اور ان سے بہترین طریقے سے نبردآزما ہونے کی طرف راہنمائی بھی کرتے ہیں اور اکثر ان کےخوابوں میں بشارتیں بھی ہوتی ہیں
سورۃ یوسف کی اس مثال کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے بالکل ویسے ہی اگر ہم محمد قاسم بن عبدالکریم کے رحمانی خوابوں کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص رحمت ہیں۔ یہ خواب ہماری راہنمائی کرتے ہیں کہ کیسے ہم ترقّی کر سکتے ہیں، کیسے ہم اپنے آپ کو مشکل وقتوں کے لیے تیار کر سکتے ہیں، ان خوابوں میں بشارتیں ہیں اور یہ ہمیں مصائب اور سازشوں سے خبردار رکھتے ہیں۔ محمدقاسم کے خواب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں حالات بہت خراب ہونے والے ہیں اور ہمیں اسکے لیے منصوبہ بندی کرلینی چاہیے ورنہ ہم بُری طرح آزمائش میں مبتلا ہوں گے۔
محمد قاسم کے خوابوں کو پھیلانا انتہائی ضروری ہے
اگر محمد قاسم کے رحمانی خوابوں کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں جنگِ عظیم سوئم شروع ہو جاتی ہے تو ایک بہت بڑی تعداد میں انسان اور بالخصوص مسلمان لقمہِ اجل بن جائیں گے۔ اس تباہی سے بچنے کے لیے ہمیں ان خوابوں کو لازمی پھیلانا ہوگا اور ہمیں متّحد ہو کر لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اگر ہم یہ منصوبہ بندی نہیں کرتے تومعصوم لوگوں کی کثیر تعداد جنگ و جدل کا شکار ہو جائے گی۔ محمد قاسم کے خوابوں کی تشہیر سے ہم لوگوں میں اس احساس کو مزید اُجا گر کریں گے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور یہ محسوس کریں کہ ان خوابوں کو پھیلانا اور دوسروں تک پہنچانا کتنا اہم اور ضروری ہے۔
محمد قاسم کے خوابوں کو پھیلانے سے لوگوں میں بیداری آئے گی اور آنے والے کٹھن وقت کیلئے وہ خود کو تیار کرسکیں گے
اس تناظر میں اگر پاکستان کو سامنے رکھا جائے تو محمدقاسم کے خوابوں کو پھیلانے سے نہ صرف لوگوں میں بیداری آئے گی بلکہ یہ خواب لوگوں کو، اس وقت پاکستان کی قیادت کو اور با لخصوص آرمی چیف کو اس بات پر قائل کرنے میں بھی مدد دینگے کہ جب حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے اور پاکستان میں ہر طرف افرا تفری اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوجائے گی تو اس وقت آرمی چیف قاسم کے خوابوں کو غور سے سُنیں گے اور ان پر یقین کریں گے تو خاتم النبیین حضرت محمدﷺ بھی انکو خواب کے ذریعے یہ گواہی دینگے کہ محمد قاسم کے خواب سچّے ہیں اور یہ اللہ کی طرف سے ہیں۔
محمد قاسم کے خوابوں کو رد کرنے کا کوئی جواز نہیں
محمد قاسم ایک عام آدمی اور خاتم النبیین محمدﷺ کے ایک اُمّتی ہیں جو کہ پچھلے 28 سالوں سے اپنے خوابوں کے سچّا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے یوسف علیہ السلام نے سالوں تک صبر و تحمّل سے کام لیا اور اپنی زندگی میں تکلیفیں برداشت کیں ا ور مشکلات کا سامنا کیا۔ یہ اللہ کی مرضی ہے کہ وہ کس پہ اپنی خاص رحمتوں کا نزول کرے اور ان کو نیک لوگوں میں شمار کرے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں سورۃ یوسف میں ارشاد فرماتا ہے کہ
"اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک پہ حکمرانی اور اختیار دے دیا کہ وه جہاں کہیں چاہیں رہیں سہیں، ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں اور ہم نیکو کاروں کا ثواب ضائع نہیں کرتے۔" (سورۃ یوسف ۱۲:۵۶)۔
قرآن اور حدیث کی روشنی میں یہ محمد قاسم کے خوابوں کے بارے میں ایک مختصر تجزیہ تھا۔ کچھ علماء نے خاموشی کا راستہ اختیار کیا اور محمدقاسم کے خوابوں کورد نہیں کیا۔ البتّہ وہ علماء جو قاسم کے خوابوں کو جھٹلاتے ہیں آیا کہ کسی خوف کی وجہ سے یا قرآن اور حدیث میں خوابوں سے متعلق علم سے ناآشنائی یا ناسمجھی کی وجہ سے۔ آج ہم نے آپکے سامنے قرآن سے یہ ثابت کیا ہے کہ کس طرح ایک غیر مسلم بادشاہِ مصر کے خواب نے اسکی سلطنت کو ایک آفت اور آزمائش سے بچایا اور اس بادشاہ کے خواب کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا۔ قرآن میں دی گئی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی عالم کے پاس محمد قاسم کے خوابوں کو جھٹلانے کا جواز نہیں بنتا۔ اس لیے ہماری علماء کرام سے یہ اپیل اور گزارش ہے کہ آپ آگے آئیں اور جلد بازی میں کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے محمد قاسم کے خوابوں پر احتیاط اور تحمّل سے غور کریں کیونکہ ان خوابوں میں اللہ تعالیٰ اورخاتم النبیین محمد ﷺ کی طرف سے پاکستان اور اسلام کی سربلندی سے متعلّق اہم پیغامات ہیں۔
کسی بھی خاص و عام کے پاس ان خوابوں کو رد کرنے کا کوئی جواز نہیں کیونکہ ان کو رد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ قرآن اور حدیث میں بیان کردہ خوابوں سے منسلک راہنمائی کے امکان کو رد کریں گے کیونکہ قرآن اور حدیث کے مطابق ایسے خواب آنا بالکل ممکن ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ اُجلت میں شریعت سے منافی رائے قائم کر لیں جس کی پکڑ ہو جائے۔
اختتامِ گفتگو
ہم اپنی گفتگو کااختتام خاتم النبیین نبی ِکریم محمد ﷺ کی اس حدیثِ مبارکہ سے کریں گےجو کہ آپ ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات میں ارشاد فرمائی تھی اور اس حدیث میں ایک مومن کے خوابوں کی اہمیت کا ذکر ہے:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خاتم النبیین رسول اللہ ﷺ نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ کی وفات ہوئی پردہ ہٹایا، آپ کا سر مبارک کپڑے سے بندھا ہوا تھا، خاتم النبیین آپ ﷺ نے تین بار فرمایا: ”اے اللہ! میں نے پہنچا دیا (پھر فرمایا) نبوت کی خوش خبریوں میں سے سوائے سچے خواب کے جسے بندہ خود دیکھتا ہے یا اس کے لیے کوئی اور دیکھتا ہے، کوئی اور چیز باقی نہیں رہ گئی ہے، سنو! مجھے رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، تو جب تم رکوع کرو تو اپنے رب کی عظمت بیان کرو، اور جب سجدہ کرو تو دعا کی کوشش کرو کیونکہ یہ حالت اس لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول فرمائی جائے۔“ (سنن نسائی 1121)
علمائے کرام سے مؤدبانہ گزارش
ہمارے نہایت ہی قابِل احترام برِّ صغیر پاک و ہند کے علماء کرام! ہماری آپ سے یہ عاجزانہ گزارش ہے کہ آپ محمد قاسم بن عبدالکریم کے خوابوں پر غور کریں، جیسا کہ اللہ نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ جب کوئی خبر تمہارے پاس آئے توکسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے اس کی تصدیق کرو۔ قرآن میں سورۃ یوسف کی آیت نمبر43 میں اللہ نے خود ایک غیر مسلم مصری بادشاہ کے خواب کا ذکر کیا ہے اور پھر کس طرح اسکے خوا ب میں دی گئی وارننگ کی وجہ سے اللہ نے اسکی سلطنت اور رعایا کو ایک مصیبت اور قحط سے بچا لیا۔ آپ اُجلت میں محمد قاسم کے خوابوں کو رد نہ کریں اور اس معاملے میں باریک بینی سے کام لیں۔ کیونکہ قرآن اور حدیث کے مطابق ایسے خواب آنا بالکل ممکن ہیں، ایسا نہ ہو کہ آپ اُجلت میں شریعت سے منافی رائے قائم کر لیں جس کی اللہ کے ہاں پکڑ بھی ہوجائے۔