اللہ کا پسندیدہ بندہ کون ہے؟ اللہ نے محمد قاسم کی اصلاح سے متعلق کیا خواب دکھائے ہیں؟
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محمد قاسم کو اللہ تعالی نے اور اللہ کے آخری نبی اور پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے سچے خوابوں کے ذریعے زندگی گزارنے کے بہترین اصول سکھائے ہیں۔
ایک اہم خواب: ایک خاص اسکول میں داخلہ
محمد قاسم کو ان کے بہت بچپن ہی سے مختلف خواب آنا شروع ہو گئے تھے۔ ایک اہم خواب محمد قاسم کی تعلیم و تربیت کے بارے میں تھا۔ مختصراََ، اس خواب میں خاتم النبیین حضور محمد ﷺ ، محمد قاسم سے فرماتے ہیں کہ میں نے تمہارا داخلہ اسکول میں کروا دیا ہے۔ اس کے بعد قاسم خود کو ایک سکول میں موجود پاتے ہیں۔ اور وہاں قاسم کی ملاقات حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے بھی ہوتی ہے۔ محمد قاسم کو ایک بہت زبردست یونیفارم دیا جاتا ہے، بہترین کتابیں اور ساری چیزیں مہیا کی جاتی ہیں۔ ((مکمل خواب آپ یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔))
یہ خواب دراصل اس بارے میں اشارہ ہے کہ کس طرح اللہ محمد قاسم کی تعلیم و تربیت کا بندوبست فرمائے گا۔ اسکول سے مُراد وہ تعلیمات ہیں جو اللہ اور خاتم النبیین محمد ﷺ نے قاسم کو ان کے خوابوں کے ذریعے سکھائی ہیں۔ ذیل ان تعلیمات میں سے کچھ اہم ترین نکات کو بیان کیا گیا ہے:
اوّل: ہر قسم کے شرک سے اجتناب
سب سے پہلا سبق جو اللہ تعالی نے محمد قاسم کو سکھایا وہ ہے ہر قسم کے شرک سے بچنا۔ شرک اللہ تعالٰی کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے۔ اللہ تعالٰی نے سوا لاکھ کے لگ بھگ انبیاٴء اور رسول اس دنیا میں بھیجے، سب کا ایک ہی پیغام تھا کہ
اے اللہ کے بندو! اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا!
سب سے بڑی ریکوائرمنٹ جو اللہ تعالی کی ہم سے ہے وہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی کو بالکل شریک نہیں ٹھہرانا۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ "بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہتا ہے معاف فرما دیتا ہے۔" (سورۃ النساٴ۔ ۴۸)
اللہ تعالٰی ہر چیز معاف کرسکتا ہے لیکن اگر کسی نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھرایا اور اس کے بعد توبہ نہ کی یعنی تائب نہ ہوا اور شرک کو نہ چھوڑا اور اپنی زندگی کو نہ بدلا تو اللہ تعالٰی اس شخص کو کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔
((آج کے دور میں شرک کیا ہے، اس کی کیا اقسام ہیں))، ان کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
دوئم: کثرت سے اللہ کا ذکر
محمد قاسم کو سکھایا گیا ہے کہ ہر وقت، جس قدر ہو سکے اللہ کو یاد کریں۔ اللہ کا ذکر زبان پر جاری رہے۔ اللہ کی یاد دل میں بسی رہے۔ جیسا کہ اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے:
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ (آل عمران۔ ۱۹۱) "جو اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں‘ کھڑے بھی‘ بیٹھے بھی اور اپنے پہلوئوں پر لیٹے بھی۔"
خاتم النبیین آپ ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے
دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں، میزانِ عمل میں بھاری ہیں اوراللہ پاک کو بہت پسند ہیں۔ (وہ دو کلمے یہ ہیں): ”سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ،سُبْحٰنَ اللہِ الْعَظِیْم“۔(بخاری،ج 4،ص297، حدیث:6682)
اللہ تعالٰی نے محمد قاسم کو ان کلمات کا بار بار بہت زیادہ ورد کرنے اور ہر وقت ان کو پڑھنے کاسبق سکھایا ہے۔
سوئم: کثرت سے خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر درود و سلام بھیجنا
نبی مکرم ﷺ اللہ کے محبوب اور آخری نبی ہیں۔ آپ ﷺ کا مقام اللہ کے ہاں یہ ہے کہ اللہ رب العزت خود اور اس کے فرشتے خاتم النبیین حضرت محمدﷺ پر درود بھیجتے ہیں اور یہی حکم اللہ نے ہمیں بھی دیا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِی-یاَیُّھا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(الاحزاب۔ ۵۶) "بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس (نبی) پر، اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو!"
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی تسبیح و تمحید اور درود و سلام کس مناسبت سے کیا جائے۔ درود شریف زیادہ پڑھا جائے یا حمد؟
محمد قاسم کو خواب میں اللہ تعالٰی نے یہ مناسبت بتائی ہے۔
چھے (6) مرتبہ اللہ کی تسبیح کی جائے۔ اور پھر ایک (1) مرتبہ حضرت محمد ﷺ پر درود و سلام بھیجا جائے۔
چہارم: اللہ تعالٰی کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا
اللہ تعالٰی نے قاسم کو بتایا کہ اللہ تعالٰی کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا کیونکہ اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں جیسا کہ مشہور مقولہ ہے کہ ’مایوسی کفر ہے‘۔
تو یہ چوتھا سبق اللہ تعالٰی نے محمد قاسم بن عبدالکریم کو سکھایا ہے کہ اللہ تعالٰی کی عظمت سے ہمیشہ ہمیشہ پُر اُمید رہنا۔
آج اگر آپ کو مشکل ہے تو انتظار کریں ،انشاءاللہ کل اللہ تعالٰی آسانی پیدا فرمائے گا۔
’’لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا ما اٰتٰھا-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠‘‘(طلاق۔۷) "اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی قدر جو اسے دے رکھا ہے، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی کر دے گا۔"
اللہ تعالٰی نے اس کے بارے میں قرآن میں بار بار زور دیا ہے۔
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(اٰل عمران۔۱۳۹) "اور نہ تم سُستی کرو اور نہ غم کھاؤ، تمہی غالب رہو گے اگر ایمان رکھتے ہو۔"
اس سے بڑھ کر اور کون سی گارنٹی چاہیے ہمیں؟ لیکن اللہ نے مزید تسلی دینے کے لیے اپنے نبی خاتم النبیین محمد ﷺ سے فرمایا:
وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا ۔۔۔(الطور۔ ۴۸) "اور اپنے رب کا حکم آنے تک صبر کرو، کیونکہ بے شک تم ہماری آنکھوں کے سامنے ہو۔"
یہ اتنی خوبصورت بات ہے کہ تم میری نظروں کے بالکل سامنے ہر وقت رہتے ہو۔ اللہ انسانوں کی طرح نہیں دیکھتا بلکہ اس کا دیکھنا بہت مختلف اور مکمل ہے۔ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم اللہ تعالٰی کی نظروں کے سامنے ہیں، تو ہمیں ایسے لگتا ہے کہ جہاں اللہ کی اور بہت سی مخلوق ہیں، ان میں ایک میں بھی ہوں، تو اللہ سب پر ایک نظر ڈال رہا ہوگا۔ جب ایک اُستاد اپنے شاگردوں پر نظر ڈالتا ہے تو وہ نظر بہت نا مکمل اور سرسری ہوتی ہے۔ اور اگر استاد ایک طالبعلم کو توجہ سے دیکھے تو باقیوں سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ لیکن اللہ کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اللہ جب اپنے بندوں کو دیکھتا ہے تو وہ ہر ایک کو ایسے دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے وہ صرف ایک ہی کو دیکھ رہا ہے، اللہ کی توجہ بٹتی نہیں ہے۔ اللہ کی وہ کمزوریاں محتاجیاں نہیں ہیں جو ہماری ہیں۔
اللہ نے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں وہ بڑے خوبصورت ہیں، اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم ہر وقت میری نظروں کے بالکل سامنے ایسے ہوتے ہو کہ جیسے صرف ایک اللہ اور صرف ایک بندہ ہو۔ ایک سے بندے دوسرے بندے پر نظر رکھنے سے اللہ تعالٰی کا دھیان کم نہیں ہو جاتا۔ جب آپ اس بات کو ذہن نشین کر لیں گے کہ اللہ تعالٰی تو مجھے پوری توجہ اور یکسوئی سے دیکھ رہا ہے تو آپ کو صبر آئے گا اور پھر اللہ تعالی سے یکسوئی کے ساتھ مانگیں گے، اور صرف اسی سے اُمید لگائیں گے۔ انشاٴاللہ!
پنجم: اللہ تعالی کی زمین پر عاجزی سے چلنا
پانچویں چیز یہ ہے کہ اللہ کی زمین کے اوپر عاجزی سے چلا جائے۔ تکبر، غرور اور اکڑ سے بچ کر تواضع اور انکساری اختیار کی جائے۔ اس کے بارے میں قرآن میں بہت زیادہ تاکیدآئی ہے۔
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳) "اور رحمنٰ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجز ہوکر چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے۔"
اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کی تعریف کی ہے کہ وہ لوگ اس زمین کے اوپر عاجزی سے چلتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں لقمان حکیم کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ انہوں نے بھی اپنے بیٹے کو بھی یہی حکم دیا تھا کہ بیٹے زمین پراکڑ کر نہ چلنا کیونکہ اکڑنا اللہ تعالی کو بہت ناپسند ہے۔
وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحاً-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْر(لقمان۔۱۸) "اور کسی سے بات کرنے میں (تکبر سے) اپنے رُخسار نہ پُھلا؛ اور زمین میں اِتراتے ہوئے نہ چلا کر، بےشک اللہ کو کوئی اترانے والا شیخیاں بھگارنے والا شخص پسند نہیں۔"
اللہ نے سورۂ بنی اسرئیل میں فرمایا ہے:
وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحا-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(۳۷)كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَیِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا(بنی اسرائیل۔۳۸) "اور زمین میں اتراتا نہ ہوا چل! تُو ہر گز نہ زمین کو پھاڑ ڈالے گا اور ہرگز نہ پہاڑوں کے طول و عرض کو پہنچے گا۔ یہ سب حرکتیں گناہ ہیں اور تیرے رب کو سخت ناپسند ہیں۔"
ہماری کوشش ہوگی کہ ہم اس کے بارے میں مزید معلومات آپ تک پہنچائیں۔
(آمین)اللہ تعالٰی آپ کا ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور اللہ تعالٰی اُمّت مسلمہ کو مشکلات سے نکال کر آسانی عطا فرمائے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ