Select Language

بھوکے شیر اور الله کی مدد

مارچ 2015

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

میں اِس خواب میں اپنے پُرانے سے گھر میں ہوتا ہوں جوکہ ٹُوٹا پُھوٹا ہوتا ہے، اِس میں لائٹ بھی نہیں ہوتی اور گھر کی بُری حالت ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ شاید میری قسمت میں اِن اندھیروں میں رہنا ہی لکھا ہے۔ اچانک اللہ ﷻ اپنے عرش پہ آتا ہے اور فرماتا ہے ’’قاسم! کب تک اِن اندھیروں میں بیٹھا رہے گا؟ گھر سے باہر نکل اور میری رحمتوں اور برکتوں والی منزل کو تلاش کر، جہاں نہ اندھیرے ہیں اور نہ کوئی غم۔" یہ سُن کر میں بہت خوش ہوتا ہوں کہ اللہ ﷻ کتنا اچھا ہے، وہ مجھے اِن اندھیروں سے نکالنے آیا ہے۔

میں خوشی خوشی گھر سے باہر نکلتا ہوں۔ ابھی تھوڑی ہی دور جاتا ہوں کہ میں کئی دنوں کے بھوکے آٹھ، دس شیردیکھتا ہوں جو سائز میں بھی کافی بڑے ہوتے ہیں۔ میں اُن کو دیکھ کر ڈر جاتا ہوں اور واپس گھر کی طرف بھاگتا ہوں اور جلدی سے دروازہ بند کر لیتا ہوں، اور کہتا ہوں ’’یا اللہ، باہر تو آٹھ ، دس بڑے بڑے بھوکے شیرہیں، وہ تو مجھے کچّا کھا جائیں گے۔‘‘ تو اللہ ﷻ فرماتا ہے ’’تُو میرا یقین کر، اِن میں سے کوئی بھی تجھ تک نہیں پہنچ سکے گا۔‘‘ میں کھڑکی سے شیروں کو دیکھنے کے لیے باہر جھانکتا ہوں، تو عین اُس وقت تین خوفناک قِسم کے کتّے تیزی سے خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے چھلانگ لگا کرمیری طرف بڑھتے ہیں۔ میں پیچھے کی طرف بھاگتا ہوں اور گِرجاتا ہوں۔ کھڑکی پہ لوہے کا جنگلہ لگا ہوتا ہے، اور وہ کتّے اِس جنگلے سے ٹکرا کر باہر ہی گر جاتے ہیں۔ میں اللہ ﷻ سے کہتا ہوں ’’یہ دیکھ! میرے اُوپر اِن کتّوں نے حملہ کر دیا ہے۔ اور تُو فرماتا ہے کہ مجھ تک کوئی بھوکا شیرنہیں پہنچ سکے گا؟‘‘ میں کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ جاتا ہوں پِھر اللہ ﷻ اُن کتّوں پر غضب ناک ہو کربجلی گراتا ہے اور وہ کتّے وہیں جل کر مر جاتے ہیں۔ اللہ ﷻ مجھ سے فرماتا ہے ’’قاسم! یا تو وہ کام کر جس کا میں نے تجھے حکم دیا ہے یا پِھر اِن اندھیروں میں ہمیشہ کے لیے پڑا رہ۔ میرا یقین کر! میں تیری حفاظت بھی کروں گا اور تجھے تیری منزل تک باحفاظت پہنچاؤں گا بھی۔ قاسم! میں اپنے کام پہ غالب ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر اللہ ﷻ وہاں سے چلا جاتا ہے۔

میں وہیں پڑا سوچتا رہتا ہوں کہ کیا کروں؟ پِھر میں کہتا ہوں ’’قاسم! موت تو مجھے یہاں بھی آ جانی ہے اور اگر باہر نِکلوں گا تو تب بھی آنی ہے۔ اِس لیے گھر میں مرنے سے بہتر ہے کہ میں باہر نکل کر مروں۔ اور جیسے اللہ ﷻ فرماتا ہے کہ میں تیری حفاظت بھی کروں گا اور تجھے تیری منزل تک بھی پہنچاؤں گا تو مجھے اللہ ﷻ پہ بھروسہ کرنا چاہیئے۔"

میرے پاس اِس کے علاوہ اور کوئی راستہ ہے بھی نہیں۔ میں اللہ ﷻ کا نام لیتا ہوں مگر ڈر اور خوف کی حالت میں گھر سے نکلتا ہوں اور دروازہ کُھلا چھوڑ دیتا ہوں کہ اگر کوئی شیر میری طرف آیا تو میں واپس گھر بھاگ جاؤں گا۔ میں ڈرتے ڈرتے آگے بڑھتا ہوں مگر مجھے کوئی شیر نظر نہیں آتا۔ میں حیران ہوتا ہوں یہ سب شیر کہاں چلے گئے؟ پِھر تھوڑی دور جاتا ہوں تو مجھے ایک شیر کا کٹا ہوا بازو ملتا ہے۔ میں اُس کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ اتنے خوفناک شیر کو کس نے اتنی بے دردی سے ماردیا؟ تھوڑا اور آگے جاتا ہوں تو کسی شیرکا سر اور کسی کا دھڑ نظر آتا ہے۔ میں یہ دیکھ کر کہتا ہوں یہ کام اللہ ﷻ کے سوا اور کوئی نھيں کر سکتا۔

مجھے ایک اونچی عمارت نظر آتی ہے، میں اُس پہ چڑھ کر اللہ ﷻ کو ڈھونڈتا ہوں۔ اللہ ﷻ مجھے دور ایک نُور کی شکل میں کہیں جاتا ہوا نظر آتا ہے۔ میں بھاگتا ہوا اللہ ﷻ کے پیچھے جاتا ہوں۔ اور جب میں اُس جگہ پہنچتا ہوں اللہ ﷻ کا نُور وہاں سے کہیں اور چلا جاتا ہے۔ پِھر مجھے خیال آتا ہے کہ میں عمارت کے اُوپر سے کیسے بھاگ کر آ گیا ہوں۔ میں کہتا ہوں ’’میں نیچے کیوں نہیں گرا اور میں کیسے اللہ ﷻ کی مدد سے ہوا میں بھاگتا ہوا یہاں تک پہنچ گیا ہوں؟ آخر اللہ ﷻ نے ہی مجھے تھاما ہے۔‘‘ اُس کے بعد مجھے بہت جوش چڑھ جاتا ہے اور میں اللہﷻ کو آواز دیتا ہوں ’’یا اللہ تُو کہاں ہے؟"

تو اللہ ﷻ دور ایک منزل کا نام لے کرفرماتا ہے ’’قاسم! میں یہاں ہوں، جلدی سے میرے پاس آ جا۔‘‘ میں بےچینی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھتا ہوں کہ کیسے اللہ ﷻ کے پاس پہنچوں؟ تو مجھے ایک کالے رنگ کی بڑی سی، قیمتی موٹرسائیکل نظر آتی ہے۔ میں اُس کو چلاتا ہوں مگر سڑک کچّی ہوتی ہے اِس لیے میں موٹرسائیکل تیز نہیں چلا پاتا۔ میں کہتا ہوں "کاش پکّی سڑک ہوتی تو میں اِس کو تھوڑا تیز چلا لیتا۔" ابھی میں یہ کہتا ہی ہوں تو زمین کے اندر سے کالے رنگ کی پکّی سڑک نکلتی ہے اور میں موٹر سائیکل پوری رفتار سے بھگاتا ہوا اُس منزل تک پہنچ جاتا ہوں۔

وہ ایک بہت عالیشان عمارت ہوتی ہے جیسے کوئی عالیشان قسم کا فارم ہاؤس ہو جہاں لوگ سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوتا ہوں اور اندر جاتا ہوں۔ اندر کا ماحول بہت پُرسکون اور پُرامن ہوتا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے یہاں صدیوں سےکوئی نہیں آیا، مگر اُس کا رنگ روغن تھوڑا پھیکا ہوتا ہے۔ آگے دیکھتا ہوں تو وہاں کسی نے تازہ تازہ رنگ روغن کیا ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اللہ ﷻ اِس عمارت کو نیا بنا کر دوبارہ سے آباد کر رہا ہو۔

وہاں میں حلال جانور یعنی ہرن وغیرہ بھی دیکھتا ہوں۔ میں چلتے چلتے ایک بڑے سے ہال میں پہنچتا ہوں۔ وہاں اللہ کا نُور ہوتا ہے اور اللہ ﷻ فرماتا ہے ’’قاسم! کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ میں تجھے یہاں تک باحفاظت پہنچاؤں گا؟‘‘ تو میں اللہﷻ سے کہتا ہوں ’’تُو نے اپنی باتیں سچ کر دکھائیں، تُو نے مجھے راستہ دکھایا اور مجھے اِن اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آیا، تُو سب سے بہتر راستہ دکھانے والا ہے۔ اب میں کل صبح نہا دھو کر اپنے سارے کام نمٹا کر تجھے بتا دوں گا۔‘‘ تو اللہ ﷻ میری بات سُن کر بہت سنجیدہ لہجے میں فرماتا ہے ’’قاسم! اگر تُو کل اپنے سارے کام کر لے گا، تو میں بھی شام کو قیامت قائم کر دوں گا۔‘‘

Next Post Previous Post