انڈیا کا لاہور پر حملہ اور پاک فوج مفلوج
20/03/ 2017
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السلام علیکم!
میں اِس خواب میں دیکھتا ہوں کہ سرحد کے اُس پار جو کہ افغانستان کی سرحد کی طرح لگ رہی ہوتی ہے، دشمن وہاں سے دہشت گرد بھیجتے ہیں۔ پاک فوج بہت اچھے انداز میں اُن سے نمٹ رہی ہوتی ہے اورخوب نشانے لگا کر اُن کو مار رہی ہوتی ہے۔ یہ دیکھ کر دشمن بہت غصّہ ہوتے ہیں کہ فوج ہر وقت ہمارے راستے میں رکاوٹ ہے۔ پھر دشمن اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو جدید اسلحہ اور نائٹ ویژن کے آلات دے کر پاکستان کی طرف بھیجتے ہیں۔ مگر جونہی وہ پاکستان کی سرحد میں داخل ہوتے ہیں تو پاک فوج اُن کو اپنےراڈار سسٹم پہ دیکھ لیتی ہے اور انھیں چُن چُن کر مارتی ہے۔ یہ دیکھ کر پاکستان کے دشمنوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو رہے ہوتے۔
پھر وہ پاکستان کے اندر سے ہی حملہ کرنے کا منصوبه بناتے ہیں تاکہ پہلے پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کر دیا جائے اور پھر حملہ کیا جائے۔ وہ پاک فوج کے کھانے میں کوئی وائرس ملا دیتے ہیں۔ پاک فوج وہ كھانا کھا کر مفلوج ہو جاتی ہے اور نقل و حرکت نہیں کرپاتی۔ پھر دشمن کہتے ہیں کہ "اب ہم پاکستان پہ حملہ کریں گے۔" مشرق کی جانب سے بھارت بہت سے علاقوں پر حملہ کرتا ہے اور مغرب کی جانب سے افغانستان کی سرحد سے حملہ کیا جاتا ہے۔
پھربھارت لاہور پہ ایک بہت بڑا حملہ کرتا ہے۔ پاکستان کی فوج اس کو سنبھال نہیں پاتی۔ پھر پاکستان کے لوگ اسلحہ لے کر نکلتے ہیں اور بھارت کا مقابلہ کرتے ہیں۔ میں بھی بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے سرحد کی جانب جاتا ہوں۔ مجھے ایک بڑی مشین گن ملتی ہے جس سے میں دشمن پہ فائر کرتا ہوں۔ میرے ساتھ دوسرے فوجی بھی ہوتے ہیں۔ جب عوام اور فوج مل کر لڑتے ہیں تو بھارتی فوج وہاں پہ رُک جاتی ہے۔ اِس دوران میں اپنے لوگوں سے کہتا ہوں کہ "پیچھے جا کر ہمیں اپنی عوام کو محفوظ مقام پر لے کر جانا ہو گا کیونکہ ہم بھارت کی فوج کو زیادہ دیر نہیں روک سکتے۔" کچھ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم یہاں بھارت سے لڑنے آئے ہیں، ہم مر جائیں گے لیکن واپس نہیں جائیں گے۔" پھر جب ہم شہر کی طرف جا رہے ہوتے ہیں تو کچھ لوگ واپسی پر کہتے ہیں کہ "اگر آرمی چیف نے قاسم کے خوابوں پر یقین کیا ہوتا اور اس کے مطابق منصوبہ بندی کی ہوتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔" اسی اثناء میں لاہور کا بہت بڑا حصّہ تباہ ہو جاتا ہے۔
پھر میں لوگوں کو لے کر ایک جگہ پہ جاتا ہوں جو کہ ایک عمارت کا زیر زمین تہ خانہ ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی چیز کی تلاش میں جا رہا ہوں۔ اِس مقام پہ ایک ایسا مُلک جس کے جھنڈے کا رنگ لال ہوتا ہے، اس کا سربراہ بھارت کو بڑے شدید الفاظ میں خبردار کرتا ہے کہ تمہاری فوج جہاں پر ہے وہیں رُک جائے ورنہ میں تمھیں تباہ کر دوں گا۔ پھر وہ مُلک پاکستان کی مدد اور حمایت کرتا ہے۔ پاکستان کی فوج کے علاج کے لیے اپنی فوج اور ڈاکٹرز بھیجتا ہے۔ پھر وہ خود بھی پاکستان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے پاکستان آتا ہے۔ پاکستان کی مدد اور حفاظت کے دوران اس مُلک کا اپنا بھی کافی نقصان ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ پاکستان سے اس بات کا شکوہ نہیں کرتے۔ بھارت پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا اور ڈرونز کے ذریعے سے پاکستان کے اندر وائرس اور بیکٹریا بھیجتا ہے جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں پاکستانی بچے متاثر ہوتے ہیں اور بیمار ہو جاتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میں اللہ ﷻ سے دعا کرتا ہوں کہ "یا اللہ! ہماری مدد فرما۔" پھر اللہ ﷻ بارش بھیجتا ہے جس کی وجہ سے وائرس مر جاتے ہیں۔
پھر میں کسی مقام کی طرف جا رہا ہوتا ہوں تو راستے میں ایک علاقہ آتا ہے جو کہ ایک سبزہ زار کی طرح کا ہوتا ہے۔ جو لال جھنڈے والا مُلک ہماری مدد کرتا ہے، اس کے سربراہ وہاں پہ موجود ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں میں بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ مجھے دیکھ کر پہچان لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "آپ قاسم ہیں نا؟ میں نے آپ کے خوابوں کے بارے میں سُنا ہے اور آپ کے خواب سچے بھی ہوئے ہیں۔" اُن سے ملنے کے بعد میں ایک ایسی جگہ کی تلاش میں نکل پڑتا ہوں جس کو ڈھونڈے بغیر ہم اِن مشکلات سے باہر نہیں نکل سکتے۔